donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Fauzia Akhter Nazeer
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "سرمایہ" ۔۔۔۔۔ *
کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "سرمایہ" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ by : Fauzia Akhter

عروسہ اپنی سہیلی عذرا کی بہن کی شادی میں جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔ وہ جلد سے جلد میریج ہال پہنچنا چاہتی تھی جہاں اس کی اسکول فرینڈز بھی مدعو تھیں۔ ہال میں قدم رکھتے ہی عروسہ کو اپنی پیاری سہیلی ناہید نظر آ گئ ۔ دونوں گلے لگیں اور دلہن سے ملنے چل دیں۔ انجم سرخ ساڑی میں حسین لگ رہی تھی اس کے ارد گرد نزہت، دلنشیں اور رعنا بیٹھی تھیں۔ ہنسی مذاق میں کچھ وقت گزرا۔ طعام کے بعد ناہید نے عروسہ کو بتایا کہ ھما نے ایک ہندو سے کورٹ میریج کر لی ہے جس کا نام ساحل ہے۔ وہ ھما کو میتھس کی ٹیوشن دیا کرتا تھا۔ ھما عروسہ کی بہت قریبی سہیلی تھی اور کچھ دنوں پہلے ہی اس نے ھما کی منگنی کی خبر سنی تھی۔ اس کا منگیتر شاہد دلی کے ایک سرکاری اسپتال میں سرجن تھا۔
 
"ھما نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟" 
 یہ سوال عروسہ کو پریشان کرنے لگا۔
 
وہ رات اس نے بمشکل گزاری ۔ صبح ہوتے ہی اس نے ھما کو فون کیا۔ ھما کا نیا نمبر اس نے ناہید سے لے لیا تھا۔ دوسری رِنگ پر کال ریسیو کی گئ اور ھما کی آواز ابھری۔ عروسہ نے  جھٹ سلام کیا۔ ھما کی مسرور سی آواز سنائ دی۔ اس نے عروسہ کو گھر آنے کی دعوت دی۔ عروسہ نے بھی مزید باتیں کئے بغیر اس کے سسرال کا پتہ نوٹ کیا اور اسی شام دونوں سہیلیاں آمنے سامنے موجود تھیں۔
 
 میں شاہد سے اپنی منگنی پر مطمؑن تھی جب اچانک مجھے ساحل کی محبت کا علم ہوا۔"
میں اسے ایک بہترین
 استاد اور اچھا دوست مانتی تھی لیکن اس کے دل میں میرے لئے محبت کے جذبات تھے۔ میں اس کی سنجیدگی کو شائد نظر انداز کر دیتی لیکن مجھے خبر ملی کہ وہ شدید بخار میں مبتلا ہو گیا ہے۔ پھر میں نے گھر میں امی ابو سے بات کی لیکن وہ ہماری شادی کے لئے راضی نہیں ہوئے اور پھر میں ساحل کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئ۔ شادی کے ان چھ ماہ میں ساحل سے اتنی محبت ملی ہے کہ مجھے اپنے فیصلہ پر کوئ افسوس نہیں ہے۔" ھما نے ان باتوں سے عروسہ کو آگاہ کیا۔
 
پھر ھما نے اسے بہت روکا لیکن وہ شاہد کی آمد کا بہانہ کر کے وہاں سے نکل  آئ۔ عروسہ پر ھما کا ایک بہت بڑا احسان تھا۔ اس نے ہائر سکنڈری کے امتحان میں عروسہ کو کیمسٹری میں فیل ہونے سے بچایا تھا کیونکہ اتفاق سے عروسہ کا پیپر ھما کے ٹیوشن ٹیچر ریاض سر کے پاس آیا تھا اور انہوں نے ھما کے ذریعہ درست جوابات لکھوا کر عروسہ کو زندگی بھر کے لئے ھما کا قرضدار بنا دیا تھا۔
 
گریجویشن کے بعد عروسہ کی شادی اس کے کزن شہزاد سے ہو گئ تھی اور اس کی رہائش ڈھاکہ میں رہی۔ عروسہ شادی کے بعد ذمہ داریوں میں یوں مصروف ہوئ کہ ھما سے کوئ رابطہ نہ رہ سکا تھا اور تقریباً ایک سال بعد جب وہ شہزاد کے ساتھ لکھنوؑ آئ تو اپنی سہیلی عذرا کی بہن کی شادی کا کارڈ پا کر بہت خوش ہوئ تھی۔ پرانی سہیلیوں سے ملنے کا خیال اس کے دل کو گدگدانے لگا تھا مگر آج وہ دل پر ایک بوجھ لئے گھر پہنچی۔ شہزاد عروسہ کی پھوپھی سے ملنے گیا ہوا تھا۔ اس نے عروسہ کو فون پر بتایا کہ شہلا پھوپھی نے ڈنر کا اہتمام کیا ہے اور ان کے بچے شرجیل اور ضحی اسے رات رکنے کے لئے کہہ رہیں ہیں۔ عروسہ جانتی تھی کہ شہزاد کو بچوں سے کتنا لگاوؑ ہے اور وہ خود بھی کچھ دیر تنہا رہنا چاہتی تھی۔ 
 
صبح ناشتے کی ٹیبل پر شہزاد کا فون آ گیا۔ "ہیلو عروسہ ! میں شرجیل اور ضحی کو واٹر کنگڈم گھمانے لے جا رہا ہوں۔ تم تیار ہو جاؤ۔ ہم تمہیں لینے آرہے ہیں"۔
 
عروسہ نے بہانہ بناتے ہوئے کہا۔ "مجھے شاپنگ پر جانا ہے آپ بچوں کو گھما لائیں۔" شہزاد مان گیا۔
 
شہزاد کو ٹالنے کے بعد عروسہ نے ھما کو فون لگایا۔ ھما عروسہ کے فون پر کھِل اٹھی۔ اس نے کہا۔ "ساحل تو ابھی ٹیوشن دینے نکلے ہیں۔ اچھا ہوا تم نے فون کر لیا۔ ساحل شکایت کر رہے تھے کہ کل تم اُن سے ملے بغیر چلی گئیں"۔
 
عروسہ اس کے استفسار کو نظرانداز کر کے اپنا مدعا زبان پر لے آئ۔
" ھما! کیا تمہیں ساحل کے مذہب سے کبھی کوئ دشواری پیش نہیں آئ؟"  
 
یہ سنتے ہی ھما مسکرا اٹھی۔ اس نے کہا۔ " ارے نہیں ! ساحل کے ممی اور پاپا اتنے کوآپریٹیو ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے مذہبی رسوم میں شامل ہونے کے لئے مجھ پر کوئ دباوؑ نہیں ڈالا بلکہ یہاں ایڈجسٹ ہونے میں انہوں نے میری بہت مدد کی ہے۔ ساحل نے تو مجھے جاب کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ کچھ اسٹوڈنٹس کے والدین سے ٹیوشنز کی بات بھی ہو گئ ہے۔ اب میں ساحل کے گھر پر نہ رہنے سے بور بھی نہ ہونگی اور اس طرح میری پڑھائ کا مصرف بھی ہوتا رہے گا"۔
 
 عروسہ خاموشی سے ھما کی باتیں سن رہی تھی۔ جب ھما نے شہزاد کے متعلق پوچھا تو عروسہ نے سرسری طور پر بتا کر فون رکھ دیا۔
 
ھما کی طرف سے عروسہ کو کچھ حد تک اطمینان ہوگیا تھا لیکن اسے اس کے گھر والوں کی فکر تھی۔ ناہید نے اسے بتایا تھا کہ وہ لوگ بدنامی سے تنگ آ کر دوسرے علاقے میں شفٹ ہو گئے ہیں اور ھما کی چھوٹی بہن تبسم کی شادی کے بعد اس کے ساس اسے طعنے و تشنیع سے نوازتی رہتی ہیں یہی نہیں بلکہ ھما کا چھوٹا بھائ طارق جو پانچوں جماعت کا طالب علم ہے اپنی امی سے پوچھتا رہتا ہے کہ شادی کے بعد آپی اس سے ملنے کیوں نہیں آتیں۔ یہ باتیں سوچ کر عروسہ کی آنکھیں پُر نم ہو گئیں اور وہ کچن میں چلی آئ جہاں اس کی بھابھی ثنا دوپہر کا کھانا تیار کر رہی تھیں۔ وہ بڑی خوش مزاج تھیں۔ ثنا سے باتیں کر کے عروسہ کے ذہن و دل کا بوجھ کچھ کم ہو گیا۔ وہ کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلی آئ اور بستر پر لیٹتے ہی اسے نیند نے آ گھیرا۔
 
دروازے پر لگاتار ہونے والی دستک سے عروسہ کی آنکھ کھلی۔ دروزاہ کھولنے پر اس نے دیکھا کہ اس کا آٹھ برس کا بیٹا کاشف سامنے کھڑا ہے۔ گزرے دنوں کی یادیں آج خواب کی صورت میں تازہ ہو گئیں تھیں۔ ھما اور ساحل ک شادی کو تقریباً دس برس کا عرصہ گزر چکا تھا۔ شہزاد کو نو برس پہلے کناڈا میں شیف کی جاب مل گئ اور وہ یہیں رہائش پذیر ہو گئے۔ اس دوران عروسہ جب بھی لکھنوؑ آئ اس کی ملاقات ھما سے نہ ہو سکی کیونکہ اتفاق سے ہر بار وہ دوسرے شہر کی سیر کر رہی ہوتی تھی۔ لیکن چار برس قبل عروسہ کا موبائل ایک شاپنگ مال میں کھو گیا جس کے ساتھ ہی ھما سے رابطہ کا ذریعہ بھی ختم ہو گیا۔
 
عروسہ خواب کی کیفیت سے نکل نہ پائی تھی کہ شہزاد آتا دکھائ دیا۔ وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا۔
 
شہزاد نے کہا۔"عروسہ تم اپنی پیکینگ کر لو ۔ آج رات ہماری ممبئ کی فلائیٹ ہے۔ پرسوں میرے عزیز دوست رمیز کے اکلوتی بہن کی شادی ہے اور اس نے ہمیں بطور خاص مدعو کیا ہے۔ شادی اٹینڈ کرنے کے بعد ہم لوگ لکھنو چلیں گے۔ امی ابو سے ملے ہوئے بھی کافی عرصہ ہو گیا ہے"۔
 
مائیکہ جانے کی خوشی میں عروسہ نہال ہو گئ اور کپڑے سوٹ کیس میں رکھنے لگی۔ کاشف کا فائنل ٹرم کا امتحان بھی ختم ہو چکا تھا اور شہزاد کو بھی چھٹیاں مل گئیں تھیں۔ ممبئ پہنچ کر عروسہ نے شادی میں شرکت کی اور پھر ولیمہ کے بعد اگلی فلائیٹ سے  شہزاد اسے اور کاشف کو لکھنوؑ لے آیا۔  ان کی اچانک آمد سے گھر والے بہت خؤش ہو گئے۔
 
انہیں لکھنوؑ آے ہوئے ہفتہ گزر چکا تھا جب ایک دن عروسہ کی بھابھی ثنا اسے شاپنگ کروانے بازار  لے آئ۔ دوپہر کا وقت تھا اور دھوپ کی شدت پوری آب و تاب ہر تھی۔ شاپنگ کے بعد دونوں کولڈ ڈرنک پینے کی غرض سے ایک ریستوران میں داخل ہوئیں جہاں عروسہ کی نظر اخروٹی رنگ کے لباس میں ملبوس اور سنہرے فریم کا چشمہ لگائے ھما پر پڑی۔ وہ ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ بیٹھی کولڈ ڈرنک سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔  
 
 عروسہ بے اختیار اس کی طرف بڑھی۔ ھما بھی اسے سامنے دیکھ کر کچھ دیر کے لئے حیران رہ گئ اور دونوں گلے لگ پڑیں۔ ان کی آنکھی نم تھیں مگر چہرے خوشی سے جھلملا رہے تھے۔ عروسہ نے ھما سے اگلے روز ایک ٹریٹ کےبہانے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ ھما سے تنہائ میں بپت ساری باتیں کرنا چاہتی تھی۔
 
 اگلے روز وہ اپنے پسندیدہ  اٹالین ریستوران  "فائر اینڈ آئس" پہنچی جہاں ھما پہلے سے اس کی منتظر تھی۔ عروسہ نے پزا کا آرڈر دیا اور ھما کی طرف متوجہ ہوئ۔
 
"کہو ڈئیر ! ہمارے مجنوں صاحب سدھرے ہیں یا ابھی بھی انہیں دیوانگی کا مرض لاحق ہے؟" 
عروسہ نے شگفتگی سے پوچھا۔
 
"میں ساحل سے چار برس پہلے طلاق لے چکی ہوں"  
ھما نے سرد مہری سے جواب دیا۔
 
آخر تم نے یہ فیصلہ کیوں لیا؟ کیا ساحل بدل گیا تھا؟ کیا وہ تمہیں اپنے مذہب میں شامل کرنا"
"چاہتا تھا؟ 
عروسہ حیران و پریشان ہو کر کئ سوال کر گئ۔
 
ساحل یا اس کے گھر والوں نے اپنے مذہب میں شامل ہونے کے لئے مجھ پر کوئ دباوؑ نہیں"
ڈالا"۔
وہ کوالیفائڈ
لوگ ہیں اور ان کے نزدیک مذہب کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ہماری زندگی میں رکاوٹ کا سبب بنے"۔
ھما نے ایک سچائ کا اعتراف کیا۔
 
"پھر تم نے ساحل سے الگ ہونے کا فیصلہ کیوں لیا؟"
عروسہ نے متجسس ہو کر کہا۔
 
وقت کے معاملے میں ساحل کی حد درجہ کی پابندی جو اس کی ذات کی خوبی بننے بجائے"
میرا دردِ سر بن گئ
تھی۔  ٹیوشن سے مجھے گھر پہنچنے میں اگر مقررہ وقت سے پانچ منٹ کی بھی دیر ہوتی تو اس کا غصہ ساتویں آسمان پر ہوتا تھا۔ اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ خیر! تم سناوؑ ! تمہاری زندگی کیسی گزر رہی ہے "؟
 
ھما نے چند جملوں میں اپنی ذات کا دفاع کیا۔
 
"تو اب تم اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہوگی؟"
عروسہ نے اس کا سوال نظر انداز کر کے پوچھا۔
 
 نہیں! میں ایک گرلز ہاسٹل میں رہ رہی ہوں۔ اردو میڈیم کے ایک گورنمنٹ اسکول"
میری سرکاری نوکری ہو گئ ہے"۔
ھما نے مطمعن لہجے میں جواب دیا۔
 
لیکن آج کل تو سرکاری نوکری ملنا بہت مشکل ہے۔ کیا کسی سفارش کی بنا پر یہ نوکری"
تمہیں ملی"؟"
 
 عروسہ نے سوال کیا۔
 
تحریری امتحان اور انٹرویو کلیئر کرنے کے بعد مجھے اس عہدہ پر اپوائنٹ کیا گیا۔ اب اسے میرے
والدین کی دعاوؑں کا عطیہ کہو یا پھر کئ سالوں کے پڑھانے کا تجربہ رنگ لےآیا ہو۔ مارننگ سیکشن میں کلاسز رہتی ہیں۔ پھر ایک بینک میں ایچ آر کی پوزیشن سنبھالتی ہوں اور شام کو دو ٹیوشنز دینے کے بعد ہاسٹل آجاتی ہوں۔ کل جس لڑکی کو تم نے ریستوران میں دیکھا تھا اس کا نام روبی ہے۔ وہ میری روم میٹ ہے اور ابھی آئ ایس سی کی طالبہ ہے "۔
 
ھما نے تفصیلاً اپنی سرگرمیوں سے عروسہ کو آگاہ کیا۔
 
"کیا امی ابو نے تمہیں گھر پر رہنے کے لئے نہیں کہا؟"
 
عروسہ نے دل میں ابھرتے ہوئے سوال کا اظہار کیا۔
 
وہ تو بضد تھے کہ میں ان کے ساتھ  رہوں لیکن میں اپنے رشتہ داروں کی چبھتی نظروں"
کاسامنا نہیں کرناچاہتی تھی"۔
ھما نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
 
"طارق کیسا ہے؟"
"اب تو وہ کالج کا اسٹوڈنٹ ہوگا" 
 
عروسہ نے ھما کے لاڈلے بھائ کا ذکر چھیڑ کر ماحول کا رنگ بدلنا چاہا۔
 
وہ انجینئرنگ میں ایڈمیشن لے چکا ہے اس کی فیس کا خرچ اٹھانا ابو  کے لئے دشوار تھا"
لیکن میری ضد پر
وہ مان گئے اور اب میں نے اس کی تعلیم کی پوری ذمہ داری اٹھا لی ہے۔ انشا اللہ وہ ایک کامیاب انجینئر بنے گا"۔
ھما نے مسکراتے ہوئے پر عزم لہجہ میں کہا ۔ عروسہ نے اس کی دعا پر آمین کہا۔
 
"تبسم خیرہت سے ہے؟"
عروسہ نے ھما کی چھوٹی بہن کے متعلق سوال کیا۔
 
وہ بہت خوش ہے اور اس کا شوہر مجھے آپا کہتے نہیں تھکتا۔ میری بھانجی ارم جو پرسوں پورے چار برس کی ہو"
 جائے گی اس کی سالگرہ کا تحفہ لینے کے لئے ہی میں کل بازار گئ تھی اور مجھے تم مل گئیں۔تمہیں ارم کی سالگرہ پر ضرور آنا ہے"۔"
ھما نے پرجوش لہجے میں عروسہ کو مدعو کیا۔
 
 دونوں باتوں میں مصروف تھیں جب عروسہ کا سیل فوں بجا اور شہزاد نے اسے جلد گھر آنے کی تاکید کی کیونکہ کاشف واٹر کنگڈم جانے کی ضد کر رہا تھا۔
 
عروسہ اور ھما کو مجبوراً اٹھنا پڑا۔ وہ  گلے لگیں، ایک دوسرے کا موبائل نمبر لیا اور الوداعی کلمات کے بعد اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔
 
دونوں سہیلیوں نے اپنا سرمایہؑ حیات پا لیا تھا۔
 ۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂ
 
فوزیہ اختر
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 399