* وحشتیں سینچتی رہتی ہیں جڑوں تک مج¬ *
وحشتیں سینچتی رہتی ہیں جڑوں تک مجھ کو
کوئی پودا ہوں سرِ دشت بڑا ھوتا ہوں
اسی آزار سے بیٹھا ہی نہیں کرتا میں
بیٹھ جاتا ہوں تو مشکل سے کھڑا ہوتا ہوں
رات سوتا ہوں شبستان مقفل کر کے
صبح اٹھتا ہوں تو رستے پہ پڑا ہوتا ہوں
کھولنے لگتا ہوں میں اپنے بدن کے پرزے
جانے کیسا ہوں کسی ضد پہ اڑا ہوتا ہوں
لوٹ آتا ہوں زمیں پر میں سحر ہوتے ہی
رات بھر خوب ستاروں سے لڑا ہوتا ہوں
فضل عباس
|