donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Fazil Jamili
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* گذشتہ ایک صدی کے نگار خانے میں *
گذشتہ ایک صدی کے نگار خانے میں 
سجی ہوئی ہیں میرے قاتلوں کی تصویریں 
کسی کے روئے منور پہ خون کی سرخی 
کسی کے دستِ ستم پر حنا کی تحریریں 
کہیں کہیں پہ منقش ہیں کچھ درودیوار 
کہ جن سے آج بھی آتی ہے میرے خون کی بو 
وہ خون جو میرے دل میں تھا اور خوشبو تھا 
وہ خون جو میرے ہاتھوں میں ایک جگنو تھا 
وہ خون میرے لیے اک خوشی کا آنسو تھا 
خوشی کا ایک یہ آنسو بھی چھیننے والا 
ایک ایسا دشمنِ جاں بھی یہاں سے گزرا ہے 
کئی حسین تہہ تیغ کر دیے جس نے 
لہو سے کتنے ہی تالاب بھر دیے جس نے 
وہ ہیروشیما ہو کوئی کہ ناگا ساکی ہو 
سبھی کو خون میں نہلا کے رکھ دیا اُس نے 
میں کیا کروں مجھے تڑپا کے رکھ دیا اُس نے 
اُسی کے بھائی اُٹھا لائے ہیں نئی تلوار 
اور آج تک ہیں میرے ساتھ برسرِ پیکار 
انہیں خبر نہیں شاید کہ انقلاب ہوں میں 
اور انقلاب تو اُس زندگی کو کہتے ہیں 
جو زخم کھا کے بھی زندہ ہے مر نہیں سکتی 
کسی غنیم ، لٹیرے سے ڈر نہیں سکتی 
اسی طرح کے لٹیرے بنامِ دین و دھرم 
شبانہ روز مجھے قتل کرتے رہتے ہیں 
پھر اس کے بعد میرے خون میں نہاتے ہیں 
نہا کے خون میں جشنِ طرب مناتے ہیں 
کوئی یہاں سے پرے بھی ہے جشن میں شامل 
جو میرے خون کو پیتا ہے اور جیتا ہے 
مگر لہو کے نشے میں یہ بھول بیٹھا ہے 
کہ زخم کھا کے فلسطین ہو گیا ہوں میں 
میں پوری ایک صدی کا ہوں عالمی مقتول 
اے سالِ نو مجھے اپنے نصاب میں رکھنا 
میں قتل ہو کے بھی فاضل بس اتنا چاہتا ہوں 
کہ میرے خون کی شبنم گلاب میں رکھنا۔ 

( فاضل جمیلی )
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 363