* اُسے کیا خبر ہے *
اُسے کیا خبر ہے
کوئی اُس کے بارے میں کیا سوچتا ہے
وہ اپنے ہی خوابوں، خیالوں میں کھوئی
کبھی جاگتی اور کبھی سوئی سوئی
کوئی اور اِسمِ وفا پڑھ رہی ہے
محبت کے دل میں اُترتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے
وہ کیا جانتی ہے
محبت کا آخر یہ کیا سلسلہ ہے
اُمیدیں کہاں سے جنم لے رہی ہیں
کہاں یہ جنم اپنا دم توڑتا ہے
جو پھول اُس کے دل میں اچانک کھلا ہے
کسی کی بہاروں بھری خواہشوں کی یہ پہلی دعا ہے
اُسے کیا پتا ہے
دعا اور خواہش کا سنجوگ کیا ہے
خوشی ہم سے روٹھی ہوئی کس لیے ہے
ہمیں روگ کیا ہے
ارادے بدلتی ہوئی دوستی اوراٹل دشمنی میں
کوئی فرق ہے تو اُسے کیا غرض ہے
وہ اپنے ہی خوابوں ، خیالوں میں کھوئی
کبھی جاگتی اور کبھی سوئی سوئی
خود اپنی ہی جانب چلی جا رہی ہے
محبت کو پھر بھولتی جا رہی ہے۔
(فاضل جمیلی)
|