* آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر، ان دنوں *
غزل
٭……فیروزخسروؔ
آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر، ان دنوں
آسیب کی ہے زد میں مرا شہر، ان دنوں
اک دوسرے سے دہشت و گریباں ہیں آج کل
ڈھایا ہے دوستوں نے بڑا، قہر ان دنوں
بھائی بہا رہا ہے یہاں بھائی کا لہو
یوں سُرخ ہو گیا ہے رُخ دہر ان دنوں
مسموم ہو گئی ہے فضائے کوئے یار کی
سانوں میں گھل گیا ہے مری زہر، ان دنوں
فرہادؔ نے تو خسروؔ بہائی تھی جوئے شیر
کھودی ہے میں نے خود کی اک نہر، ان دنوں
**** |