* یہ دہشت گرد عالم یہ اس دنیا کے عامگ *
(غلام سبحانی اطہر(الٰہ آباد
یہ دہشت گرد عالم
یہ اس دنیا کے عامگیر دشمن
یہی ہر کارواں کی پشت ہیں
یہ گردِ راہ میں روپوش رہزن
یہ دہشت گرد، ننگِ دین و ملت
نہیں ہے اس سے سلامت آدمیت
عجب یہ کژدم و اژدر صفت ہیں
عجب ہی آتش واخگر صفت ہیں
نہیں محفوظ ان سے تن ہمارے
نہیں ان سے بچے خرمن ہمارے
ہماری زندگی میں زہر ان کا
ہماری بستیوں پر قہر ان کا
حیات افروز صبحوں کے ہیں دشمن
یہ راحت بخش شاموں کے ہیں دشمن
ہماری جاگتی آنکھوں کے دشمن
ہماری نیند کے سپنوں کے دشمن
عجب ان کی ہے فطر ت ظالمانہ
مزاج ان کا عجب غارتگرانہ
نہیں ان کا وطن کوئی بھی خطہ
نہیں ان کا کسی حصے سے رشتہ
جہاں والو! یہ دشمن کُل جہاں کے
نہیں دشمن فقط ہندوستاں کے
انہیں ہر رنگ میں پہچاننا ہے
ہر اک انداز ان کا جاننا ہے
یہ وہ رہزن محافظ جن کے رہبر
وہ باغی تاجِ شاہی جن کے سرپر
عجب ہر سو یہ دہشت خیز وحشت
مہذب دور میں یہ بربریت
یہ کیسی دہر میں دہشت بپا ہے
کہ اطہرؔ حکمراں جیسے قضا ہے
٭٭٭
|