* رہِ طلب میں کِسے آرزوئے منزل ہے *
غزل
رہِ طلب میں کِسے آرزوئے منزل ہے
شعورِ ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے
نہ دے سکے گا مرے عشق بے مقام کا ساتھ
فروغِ حسن کہ اب تک اسیرِ محفل ہے
خطا پہ ناز سزا پر غور کیا کیجئے
کوئی دلیل نہ منطق عجیب شئے دل ہے
جہاں سے رکھتے ہیں ربطِ نیاز رکھتے ہیں
جبیں جھکائیں ہر اک آستاں پہ مشکل ہے
نہ سیکھ پائے جو آداب بے سوالی کے
وہ ہاتھ کب ترے دستِ کرم کے قابل ہے
خود اپنے شوق پہ ہے انحصارِ مرگ و حیات
ہمارا کوئی مسیحا نہ کوئی قاتل ہے
چھٹے کشاکش امید و بیم سے تاباں
سوادِ عشق میں بے حاصلی بھی حاصل ہے
٭٭٭
|