* کچھ جنوں کی داستاں کچھ آگہی کی بات *
کچھ جنوں کی داستاں کچھ آگہی کی بات ہے
کیا کہیں لمحوں میں ہم جو اک صدی کی بات ہے
چشمِ ساقی کا نہ صہبا کا نہ پیمانے کا ذکر
میکدہ در میکدہ اب تشنگی کی بات ہے
انگنت افراد پر یاں حکمراں ہیں چند لوگ
نام ہے جمہوریت کا خواجگی کی بات ہے
سُن رہی ہے اس لئے دنیا نہایت شوق سے
میرے غم کی بات ہر اک آدمی کی بات ہے
کیا حکایت خلد کی کیا قصہ نارِ جحیم
اک تری خوشنودی کی اک برہمی کی بات ہے
ہیں فقیروں کی صفوں میں ظلِّ سبحانی بھی آج
درس عبرت کا زوالِ خسروئی کی بات ہے
کوئی مجبوری ہے اس کی یا نیا دامِ فریب
دشمنِ جانی کے لب پر دوستی کی بات ہے
٭٭٭
|