آگ
– حفیظ میرٹھی
ایسی آسانی سے کہاں قابو میں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جا تی ہے آگ
خاک سرگرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں
برف کے ماحول میں رہ کر ٹھٹھر جاتی ہے آگ
پاسباں آنکھیں ملے ، انگڑائی لے آواز دے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کرجاتی ہے آگ
آنسؤوں سے کیا بجھے گی دوستو دل کی لگی
اور بھی پانی کے چھینٹوں سے بھڑک جاتی ہے آگ
حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر
گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ
یہ بھی ایک حساس دل رکھتی ہے پہلو میں ضرور
گدگداتا ہے کوئی جھونکا تو بل کھاتی ہے آگ
جب کوئی آغوش کھلتا ہی نہیں اس کے لئے
ڈھانپ کر منہ راکھ کے بستر پہ سوجاتی ہے آگ
امن ہی کے دیوتاؤوں کے اشاروں پر حفیظ
جنگ کی دیوی کھلے شہروں پہ برساتی ہے آگ
**********************