* دہن پر ہیں اُن کے گماں کیسے کیسے *
غزل
٭………خواجہ حیدر علی آتش
دہن پر ہیں اُن کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
بہارِ گلستاں کی ہے آمد آمد
کہ پھرتے ہیں خوش باغباں کیسے کیسے
توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کئے ناتواں کیسے کیسے
دلِ و دیدۂ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباس کیسے کیسے
کرے جس قدر شکرِ نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے
|