* خوشا دہ دل کہ ہو جس میں آرزو تیری *
غزل
٭………خواجہ حیدر علی آتش
خوشا دہ دل کہ ہو جس میں آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھے بُو تیری
یقیں ہے اٹکے گی جاں اپنی آکے گردن میں
سُنا ہے جا ہے قریبِ رگِ گلو، تیری
شبِ فراق میں اے روزِ وصل تادمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری
میری طرف سے صہبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بوتیری
جو ابر گریہ زناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری
زمانہ میں کوئی تجھ سا نہیں سیف زباں
رہے گی معرکہ میں آتشؔ آبرو تیری
|