* جو درد و غم میں رو دیا *
غزل نما
حنیف ترین
جو درد و غم میں رو دیا
خوشی کو اسی نے کھو دیا
ثمر ہمارے ضبطِ غم نے جو دیا
نئے اُفق میں بیج اس کا بو دیا
سراب دشت کے تقاضے جب بھی سخت ہو گئے
تو میں نے اپنے زندگی کو دھوپ میں بھگو دیا
امینِ زندگی تجھے تم تو کس لئے حسیں دنوں کو ہجتوں میں کھو دیا
سرورِ ذات کو بھی خود
سراب میں ڈبو دیا
بھنور بھنور سے جو خراج لیتا حنیف اُسے
کنارے کی نحیف موج نے کہاں ڈبو دیا
٭٭٭
|