* ہوائوں کے تیور بدلتے رہیں گے *
غزل نما
حنیف ترین
ہوائوں کے تیور بدلتے رہیں گے
چراغ اُن کی یادوں کے جلتے رہیں گے
تغیّر کے خواہاں ہیں جو اہل دانش وہی دیکھ لینا
نئی تاب و تب دے کے دنیائے فن کو بدلتے رہیں گے
ظفر یاب ہوں گے وہ اک دن
جو کانٹوں پہ چلتے رہیں گے
وہی قابلِ فخر کہلائیں گے اس جہاں میں
جو دشوار راہوں میں گر کرسنبھلتے رہیں گے
نشیمن وہ محفوظ ہوگا جو اب بجلیوں سے سجے گا
مگر پھوس کے گھر ہمیشہ جلے اور جلتے رہیں گے
حنیفؔ اپنا ذوق تجسس سلامت رہا تو
فن و فکر اور رستے نکلتے رہیں گے
٭٭٭
|