* زمیں سے تیرا پیار ہی فلک پہ لے گیا م& *
غزل نما
حنیف ترین
زمیں سے تیرا پیار ہی فلک پہ لے گیا مجھے
بلند و پست میں ملا نہ کوئی دوسرا مجھے
تمہارے درد میں دوستی نبھارہا تھا آج تک مگر
ہنسی ہنسی میں رو پڑج ہوا دفعتاً نہ جانے کیا ہوا مجھے
ورق ورق پہ دل کے ہے اسی کا نام
کتاب سا وہ کاش کھولتا ہے مجھے
پڑیں جو بیڑیاں تو خود حیات ایسی ہو گئی
کہ جیسے اپنی لاش ہی کو ڈھونا پڑ گیا مجھے
کٹی ہے غم میں زندگی
کسی سے کیا گلہ مجھے
عجیب سے سفر پہ ہوں حنیف میں
کہ روکتا ہے خود ہی راستہ مجھے
٭٭٭
|