* ناراضگی بھرے یہ سوالات چھوڑئیے *
غزل نما
حنیف ترین
ناراضگی بھرے یہ سوالات چھوڑئیے
یا مجھ سے بد گماں ہیں تو پھر بات چھوڑئے
دکھائیں جو دل مرا
وہ عادات چھوڑئیے
آج کل کی خرافات کم نہیں
آپ لکھنا مقالات چھوڑئیے
بیساکھیوں کے ساتھ کہاں تک چلیں گے آپ
منزل ہے میری دور مرا ہات چھوڑئیے
نہیں دیتے جو ثمر
وہ باغات چھوڑئیے
کوشش کے باوجود نہ جب مسئلے ہوں حل
تو وقت ہی کے ہاتھ میں حالات چھوڑ ئیے
ہر شعرمیں ضرور اک بات چھوڑ ئیے
حیرانیوں کا نام نہیں شاعری حنیف
جو منتشر کریں وہ خیالات چھوڑئیے
٭٭٭
|