* فرصت کہاں کہ روئیں تیرے انتظار می¬ *
غزل نما
حنیف ترین
فرصت کہاں کہ روئیں تیرے انتظار میں
ہم کھو گئے ہیں دشت ِ غم روز گار میں
دل بھی نہیں رہااب اختیار میں
تومیرے لہو میں ہے موجزن
یا نائو ہے ایک آبشار میں
جب اپنی زندگی بھی لگے بھیک کی طرح
میں کیا کہوں کہ کیا ہے میرے اختیار میں
نکلا ہوں جب بھی اپنی انا کے حصار سے
کتنی ہی منزلیں تھیں میرے انتظار میں
کبھی آسکا نہ وقت
ہمارے شمار میں
میں نے نبی ؐ کے نام سے طوفان سر کے
بیٹھا میں نا خدائوں کے کب انتظار میں
٭٭٭
|