* ہر ادائے انسانی آج قاتلانہ ہے *
غزل نما
حنیف ترین
ہر ادائے انسانی آج قاتلانہ ہے
بات جو زباں پر ہے وہ منافقانہ ہے
وقت کے صحیفے میں
ہر سخن پرانا ہے
زندگی کے قاتل ہیں زندگی کے سوداگر
ہم کو اس المیے پر قہقہہ لگانا ہے
ہاتھ پائوں شَل ہوں تو غم نہیں کہ منزل تک
جس طرح بھی ممکن ہو مسکراکے جانا ہے
کون کہتا ہے ہستی
وہم کا خزانہ ہے
جس کی مٹھیوں میں ہے آج وقت کی گردش
اس کے سامنے دیکھو سرنگوں زمانہ ہے
بے خودی حنیف اپنی
اذن شاعرانہ ہے
***** |