* تو کس لئے مغموم ہے *
غزل نما
حنیف ترین
تو کس لئے مغموم ہے
منزل مجھے معلوم ہے
جو کچھ لکھا ہے آج تک اس کی جہاں میں دھوم ہے
ہر قصۂ دنیا مرا، اک منظرِ منظوم ہے
مٹی میں ملنا ہے تو پھر
کیوں آدمی مغموم ہے
کمزور ملکوں کے لئے جو ایک خطرہ بن گیا
اس حکم نامے کے سبب دنیا بہت مغموم ہے
اپنی اَنا کو بیچ کر
حاکم خود اک محکوم ہے
جس پر فدا کون و مکاں
مومن ہے وہ معصوم ہے
٭٭٭
|