* سوچ پر پہرے لگے ہیں،پائوں میں زنج® *
غزل نما
حنیف ترین
سوچ پر پہرے لگے ہیں،پائوں میں زنجیر ہے
کیا ہمارے خواب آزادی کی یہ تعبیر ہے
دل نشیں جذبات کی تفسیر ہے
شاعری نازک بدن تصویر ہے
زندہ رہنے کی ہوس لے آئی ہے مجھ کو وہاں
خوف کی سر پر جہاں لٹکی ہوئی شمشیر ہے
درد میں ڈوبے ہوئے ہیں حرف و لفظ
غم زدہ کیا صاحب تحریر ہے
جو بھی چاہے آزما کر دیکھ لے
عزمِ دل نا قابلِ تسخیر ہے
وہ طلسم زندگی سے کیسے الجھے گا حنیفؔ
کاکل پیچاں کی جس کے پائوں میں زنجیر ہے
٭٭٭
|