* چادر اوڑھے موم کی پتھر گھوم رہا ہے *
غزل
چادر اوڑھے موم کی پتھر گھوم رہا ہے
مرحم لے کر ہاتھ میں خنجر گھوم رہا ہے
بچے اب دہلیز پر کیسے دھوم مچائیں
بستی بستی خوف کا لشکر گھوم رہا ہے
گھر کے بوڑھے آجکل ہیں فٹ پاتھ کی زینت
خود غرضی کا جانور گھر گھر گھوم رہا ہے
دریا اپنی جیب میں لے کر گھومنے والا
لب پر صحرا پیاس کا لے کر گھوم رہا ہے
سچائی کی لاش کو منصف نوچ رہے تھے
آنکھوں میں جاویدؔ وہ منظر گھوم رہا ہے
۔۔۔۔حاتم جاویدؔ
**** |