* آڑے ترچھے پتھر کاٹنے پڑتے ہیں *
غزل
آڑے ترچھے پتھر کاٹنے پڑتے ہیں
ہجر میں سات سمندر کاٹنے پڑتے ہیں
دل کے پاس اندھیرا سا اک کمرہ ہے
صدمے اُس کے اندر کاٹنے پڑتے ہیں
جب لوگوں کو مل کر رہنا آئے نہیں
بیچ سے آنگن اور گھر کاٹنے پڑتے ہیں
اک چہرہ تصویر سے باہر لانے کو
اچھے خاصے منظر کاٹنے پڑتے ہیں
جن کا قد بڑھ جاتا ہے بے قامت ہی
ایسے لوگوں کے سر کاٹنے پڑتے ہیں
موت کسی معمولی چیز کا نام نہیں
اس کے ساتھ کئی ڈر کاٹنے پڑتے ہیں
پیڑ حمیراشہروں کی مجبوری ہیں
بڑھ جائیں تو اکثر کاٹنے پڑتے ہیں
حمیرا رحمٰن
128, Mansion Ave
Yenkers N.4. 10704
Mob: (914)613-8645
indemal@yahoo.com
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|