کیوں یہ بدلی ہے چال خیر تو ہے
کس قدر ہو نڈھال خیر تو ہے
کیوں خموشی سے تکتے رہتے ہو
کیا ہوئی بول چال خیر تو ہے
تم تو میرے بڑے مخالف تھے
ہوگئے ہم خیال خیر تو ہے
یہ اداسی ہے کس لئے آخر
کیا ہے رنج و ملال خیر تو ہے
تم کو دیکھا تو میں تڑپ اٹھا
لب پہ ہے اک سوال خیر تو ہے
مجھ کو دیتے تھے حوصلہ کل تک
کھو گیا سب کمال خیر تو ہے
بدگمانی ہے ہر طرف اب کیوں
کیوں یہ بگڑا ہے حال خیر تو ہے
سب تمہارے حمایتی ہیں اب
کیسا ڈالا ہے جال خیر تو ہے
عاجزی سے مجھے ملے ہو تم
کم ہے جاہ و جلال خیر تو ہے
کیا ہوا ہے عظیم ؔ کچھ تو کہو
کیوں یہ بکھرے ہیں بال خیرتو ہے
٭
ابن عظیم فاطمی