* کھوئی آنکھیں دیکھ رہی ہیں *
کھوئی آنکھیں دیکھ رہی ہیں
دھند لے سے کچھ خواب
یا ان کی تعبیر
ہاتھوں پہ تحریر ہے کیسا
الجھا سا اک لفظ
یا ہے صرف لکیر
کاندھوں پر رکھا ہے میرے
سو صدیوں کا خوف
میری کل جاگیر
پیروں نے باندھا ہے مجھ کو
سرد زمیں کے ساتھ
کیا سوچیں تدبیر
بس میں اگر ہو اندھیاروں کے
خوشبو کرلیں قید
رنگ کرلیں زنجیر
کھول کے آنکھیں دیکھ سکوں تو
اِس دہلیز کے پار
اور ہی ہے تصویر
پار کروں میں ایک ہی جست میں
خوف کی ہر دیوار
جبر کی ہر زنجیر
لیکن میری اپنی آنکھیں؟
میری اپنی ذات ؟
صدیوں کی تعمیر؟
میری کل جاگیر؟
|