* ہم کو جس کی ہر اَدا اچھی لگی *
ہم کو جس کی ہر اَدا اچھی لگی
دل ہوا اُس پر فدا اچھی لگی
آج محفل میں گئے تو دوستو
ہم سے تھی بے حد خفا اچھی لگی
سرخ پیراہن میں مثلِ پھول تھی
اُس کے ہاتھوں پر حنا اچھی لگی
وہ بھی برہم تھی ہماری بات پر
ہم کو بھی جور و جفا اچھی لگی
ہم سے مت پوچھو جہانِ عشق میں
کیا بُری تھی چیز کیا اچھی لگی
جس کو پینے سے سدا انکار تھا!
اُس کے ہاتھوں وہ دوا اچھی لگی
عامی ہو گا موت سے خائف مگر
روز محشر کی بقا اچھی لگی
|