* رازِ دل کس طرح چھپاؤں میں *
رازِ دل کس طرح چھپاؤں میں
کوئی پوچھے تو کیا بتاؤں میں
ضبط لازم تو ہے مگر پھر بھی
آنکھ نم اور مسکراؤں میں
اے شبِ ہجر تو اکیلی ہے!
آ تجھے ہی گلے لگاؤں میں
تجھ کو میں آزما نہیں سکتا
خود کو ہر بار آزماؤں میں
ہر سو چھایا‘ اُداسیوں کا سماں
عامی خوشیاں کہاں سے لاؤں میں
|