* کیا خطا ہو گئی فضاؤں سے *
کیا خطا ہو گئی فضاؤں سے
آگ برسی ہے کیوں گھٹاؤں سے
اپنی بستی کے سب چراغوں کو
ہم بچاتے رہے ہواؤں سے
ہم کو صحرا عبور کرنا ہے
کیا غرض دُھوپ اور چھاؤں سے
ہیں مقدر میں سختیاں کتنی؟
’’آبلے پوچھتے ہیں پاؤں سے‘‘
کل تلک تھے نصیب سے نالاں
آج کیا ہو گئے دعاؤں سے
تم کو جنت کی گرطلب ہے تو
سرنگوں ہو کے ملنا ماؤں سے
|