* اس کی آنکھوں میں دھڑکتا ہے غضب ایک *
اس کی آنکھوں میں دھڑکتا ہے غضب ایک سوال
اس نے باندھا مرے آنچل سے عجب ایک سوال
نیند خوابوں سے جو الجھی ہے سحر ہونے تک
جستجو ایک تمنا تھی ، طلب ایک سوال
اپنی ہی ذات سے کرنا ہے کنارہ مجھ کو
پوچھنا ہو تو رہوں مہر بہ لب ایک سوال
میرے خوابوں نے بھی ایسی تنہائی دی
مجھ سے پوچھا ہی نہیں آج کی شب ایک سوال
جانتی ہوں کہ وہ آئے گا بہ وقتِ رخصت
مجھ سے الجھے گا کسی اور سبب ایک سوال
میرے کےِسے میں نہیں اس کے لئے کوئی جواب
اس کے کاسے میں رہا جان بلب ایک سوال
اس برس بام سے گزرے گا اگر موسمِ گل
میں بھی پوچھوں گی بصد عجزوادب ایک سوال
|