* ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنب *
غزل
ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے
وہ ساتھ نہ دیں پھر دھوپ تو کیا سائے میں بھی چلنا مشکل ہے
اب ہم پہ کھلا یہ راز چمن، الجھا کے بہارو ں میں دامن
کانٹوں سے گزرنا آساں تھا، پھولوں سے نکلنا مشکل ہے
یارانِ سفر ہیں تیز قدم اے کشمکشِ دل کیا ہوگا
رُکتا ہو ں تو بچھڑا جاتا ہوں ، چلتا ہوں تو چلنا مشکل ہے
یہ میرا مذاق تشنہ لبی لے آیا مجھے کس منزل پر
بہکوں تو ہنسے گا میخانہ، سنبھلوں تو سنبھلنا مشکل ہے
ناکامی قسمت کیا شئے ہے۔ کیا چیز شکستہ پائی ہے
دو گام پہ منزل ہے لیکن دو گام بھی چلنا مشکل ہے
یاہم سے پریشاں خوشبو تھی ، یا بند ہیں اب خوشبو کی طرح
یا مثلِ صبا آوارہ تھے، یا گھر سے نکلنا مشکل ہے
لکھتے رہے خونِ دل سے جیسے تائید نگاہِ دوست میں ہم
اقبال اب اس افسانے کا عنوان بدلنا مشکل ہے
٭٭٭
|