* پہلو میں تھی بہار ابھی کل کی بات ہے *
غزل
پہلو میں تھی بہار ابھی کل کی بات ہے
دل تھام حریمِ یار ابھی کل کی بات ہے
وہ مل گئے تو ہم کو ہوئی قدرِ زندگی
جینا تھا ناگوار ابھی کل کی بات ہے
وہ شدت الم ہے کہ اب آنکھیں نم نہیں
رہتے تھے اشکبار ابھی کل کی بات ہے
جھپکی جو ذرا آنکھ تو پہلو سے دل گیا
کتنا تھا اعتبار ابھی کل کی بات ہے
بیٹھے ہیں آج دردِ محبت پہ مطمئن
آتا نہ تھا قرار ابھی کل کی بات ہے
اب ایک برہمی کے سزا وار بھی نہیں
حاصل تھا ان کا پیار ابھی کل کی بات ہے
کرتے ہیں آج طنز قبائے بہار پر
دامن تھا تار تار ابھی کل کی بات ہے
وہ آگئے قریب تو محسوس یہ ہوا
برسوں کا انتظار ابھی کل کی بات ہے
اقبال آج غنچہ وگل پربھی حق نہیں
اپنی ہی تھیں بہارا بھی کل کی بات ہے
٭٭٭
|