* دل ناداں، طرفِ موج ہوا سوچ کے چل *
دل ناداں، طرفِ موج ہوا سوچ کے چل
پھر یہیں لوٹ کے آنا ہے ذرا سوچ کے چل
تازہ قریوں کے لئے کوچ مبارک، لیکن
ہے وہی ساری زمینوں کا خدا سوچ کے چل
کشتگانِ رہِ تسلیم تھے کچھ اور ہی لوگ
یہ نئی صف ہے سوا ئے تیغ جفا سوچ کے چل
ایک وحشی سے خرابہ نہیں ہوتا آباد
خاک اڑتی ہے سر شہر وفا سوچ کے چل
اب وہ اگلی سی کشش اس کے بلاویں میں کہاں
مجھ سے کہتا ہے مرا کوہِ ندا سوچ کے چل
ایک خواہش کی صدا آئی کہ رکنا کیسا
ایک اندیشے نے چپکے سے کہا سوچ کے چل
اب کے اس معرکۂ صبر کا نقشہ ہے الگ
کچھ ہنر اور بھی اے دعاء سوچ کے چل
************************ |