* درد ہی درد ہے آنسو بھی کہاں تک نکلے *
غزل
درد ہی درد ہے آنسو بھی کہاں تک نکلے
پھول سوکھے ہوں تو خوشبو بھی کہاں تک نکلے
دور تک ریت ہے صحرائوں کا سناٹا ہے
زندگی جینے کا پہلو بھی کہاں تک نکلے
چاندنی رات میسر ہی کہاں ہے مجھ کو
اس کڑی دھوپ میں جگنو بھی کہاں تک نکلے
اُس کو رہنا ہے مرے ساتھ ہی سائے کی طرح
آستینوں سے یہ بچھو بھی کہاں تک نکلے
سیکڑوں کام ہیں ارشاد کو آرام کہاں
اور اس جسم سے بازو بھی کہاں تک نکلے
ارشاد مظہری
25/1/2, Topsia Road,
Kolkata-700039
Mob: 9903522104
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|