* لگ رہا ہے ظلم کا انبار آج *
کہمن
اشراق حمزہ پوری
درندہ
منظر:
لگ رہا ہے ظلم کا انبار آج
گلیوں گلیوں ہو رہے ہیں حادثے
لب سئے خاموش اہلِ شہر ہیں
کر رہے ہیں وار ہم پر فاصلے
خطروں کے ہیں درمیا ں ہم سب کھڑے
دشمنوں کے گر رہے ہیں قافلے
نفرتوں کی اب کھڑی دیوار ہے
بند ہیں چاروں طرف سے راستے
کہمن:
کھوجنا ہے آپ ہی کو کوئی حل
مسئلہ لیکن بڑا دشوار ہے
آدمی ہی آدمی کے درمیاں
قاتلِ بے رحم ہے، خونخوار ہے
٭٭٭
|