* تمام شہر کی نظریں ہیں اُس خزانے پر *
غزل
تمام شہر کی نظریں ہیں اُس خزانے پر
جہاں ہے بیٹھا ہوا سانپ اک دہانے پر
عبث ہے ڈھونڈنا سب بہہ گئی زمیں دل کی
ہوئی تھی آگ کی بارش مرے ٹھکانے پر
یہ سانس اپنی کہاں ہے کہ دسترس میں رہے
مرا وجود ہوائوں کے ہے نشانے پر
بدن کی آگ بجھانا بھی کام ہے کوئی
لگے ہیں لوگ یہاں شہرِ دل بجھانے پر
عدو کی چال ہوئی کامیاب کچھ ایسی
چھپا ہے خواب میں یہ مجھ کو آزمانے پر
ولی صفت ہوں مری خاک خاک دنیا ہے
ملے گی خاک زمانے کو آستانے پر
جاویدؔ ہمایوں
88, Ripon Street, Kolkata-700016
Mob: 9831720642
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|