* شطرنج کی بساط یا جادو گری رہے *
غزل
شطرنج کی بساط یا جادو گری رہے
ہے شرط دونوں کھیل میں پیشہ وری رہے
میں گل فروش بن گیا اک رات کے عوض
خواب و خیال میں ذرا نیلوفری رہے
دل چاہتا ہے یہ مرا روئوں میں رات دن
میرے لہو میں جذبۂ نوحہ گری رہے
گنتا رہا میں آنسوئوں کو سانس کی طرح
دریا کنار قطرہ ہو یہ سروری رہے
بارِ گنہ بھی سر پہ ہے کچھ حسرتیں بھی ہیں
میرے ہی دم سے دوستو دہشت گری رہے
اس شہر کیمیا میں ہے خطرہ بھی جان کا
ہر وقت پاس نسخۂ دیدہ وری رہے
جاویدؔ ہمایوں
88, Ripon Street, Kolkata-700016
Mob: 9831720642
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|