غزل
بیاد پروفیسر لطف الرحمن
ہمراہ مرے یوں تو وہ اکثر نہ ہوا تھا
پر جیسا ہوا اب وہ ستم گر نہ ہوا تھا
اے دوست ترا غم جو مقدر نہ ہوا تھا
خوں رنگ مرے شہر کا منظر نہ ہوا تھا
سب کار جنوں سیکھ کے دنیا کی ہوس میں
دیوانہ جہاں ساز ،جہاں گر نہ ہوا تھا
اک حشر ترے حرف جنوں پر تو اٹھا تھا
اس طرح مگر فتنہ محشر نہ ہوا تھا
ہر چند کہ پہلے بھی نہ گزری تھی سکوں سے
دنیا سے مگر دل تو مکدر نہ ہوا تھا
وہ قطرہ بے مایہ انا الحق میں ہوا ضم
جو آنکھ سے ٹپکا تھا سمندر نہ ہوا تھا
جاوید رحمانی
٣٣٦ اے بی بدھ وہار
نزد جواہر لال نہرو یونیورسٹی
نئی دہلی ١١٠٠٦٧
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸