* دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد *
غزل
٭……علی سکندر جگرؔ مراد آبادی
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمہ بے ساز و صدا یاد
جب کوئی حسین ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اُس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانئے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مُدّت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
میں ترکِ رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آگئی ایسے میں تری لغزش پا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتائوں
کیجئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد |