* مِلا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز *
غزل
٭……شبیر حسن جوشؔ ملیح آبادی
مِلا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی توہیں دو ستون محکم، انہی پہ قائم ہے نظمِ عالم
یہی تو ہے رازِ خلدِ آدم ، نگاہ میری شباب تیرا
صبا تصدّق تیرے نفس پر، چمن تیرے پیرہن پہ قرباں
شمیمِ دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے روبرو گو، اُٹھائی نظریں ملائی آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن، سوال میرا جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ، ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے، ملا نہ رنگِ شباب تیرا
ادھر مِرا دل تڑپ رہا ہے تری جوانی کی جستجو میں
اُدھر مِرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ، رہے گا دونوں کو کرکے رُسوا
شورشِ ذوقؓ دید میری، یہ اہتمامِ حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں، فلک تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا، تمام روزِ شباب تیرا
|