* فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکرِ خوباں کی *
غزل
٭……شبیر حسن جوش ملیح آبادی
فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکرِ خوباں کیوں نہ ہو؟
خاک ہونا ہے تو خاکِ کوئے جاناں کیو ں نہ ہو؟
زیست ہے جب مستقل آوارہ گردی ہی کا نام
عقل والو! پھر طوافِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو؟
مستیوں سے جب نہیں مستوریوں میں بھی نجات
دل کھلے بندوں غریقِ بحرِ عصیاں کیوں نہ ہو؟
اِک نہ اِک ہنگامہ پر موقوف ہے جب زندگی
میکدے میں رند رقصاں و غزلخواں کیوں نہ ہو؟
جب خوش و ناخوش کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ہاتھ
ہمنشیں ! پھر بیعتِ جامِ زر افشاں ہی کیو ں نہ ہو؟
جب بشر کی دسترس سے دور ہے ’’ جبل المتین‘‘
دستِ وحشت میں پھر اک کافر کا داماں کیوں نہ ہو؟
اک نہ اک رفعت کے آگے سجدہ لازم ہے تو پھر
آدمی محوِ سجودِ سروِ خوباں کیوں نہ ہو؟
اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہے توجوش
زندگی پر سایۂ زلفِ پریشاں کیوں نہ ہو؟
|