donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Josh Malihabadi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرّا ہی  *
غزل

٭……شبیر حسن جوشؔ ملیح آبادی

قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرّا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا ، پھر بھی
ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبراہی جاتا ہے
خلافِ مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح!
وہ آتے ہیں تو چہرے پہ تغیّر آہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھِرکے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو؟ یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیالِ عیش رفتہ آہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے، وہ کملاہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گل ، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آہی جاتا ہے
****
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 384