* قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرّا ہی *
غزل
٭……شبیر حسن جوشؔ ملیح آبادی
قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرّا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا ، پھر بھی
ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبراہی جاتا ہے
خلافِ مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح!
وہ آتے ہیں تو چہرے پہ تغیّر آہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھِرکے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو؟ یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیالِ عیش رفتہ آہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے، وہ کملاہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گل ، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آہی جاتا ہے
**** |