* خود سے مت ہونا جدا کہتی رہی *
خود سے مت ہونا جدا
کے اشرف
خود سے مت ہونا جدا کہتی رہی
مجھ سے لپٹی اِک صدا کہتی رہی
پھول کھو دیتے ہیں اپنی تازگی
چھو کے مجھ کو یہ صبا کہتی رہی
بھر رہا ہے زہر مجھ میں سر بسر
میرے گاؤں کی ہوا کہتی رہی
ہو سکے تو یہ تعفن روک لو
سہمی سی نیلی فضا کہتی رہی
ڈوبنے دو جام میں سب سسکیاں
ابر کی کالی گھٹٓا کہتی رہی
جانے کیا کیا زہر میں پیتا رہا
جانے کیا خلق ِ خدا کہتی رہی
********
|