* دے رہا ہے کون صحرا میں اذاں *
غزل
دے رہا ہے کون صحرا میں اذاں
چومتا ہے کس کا ماتھا آسماں
کون کٹوا کر گلا کس دشت میں
نعرہ زن ہے دشمنوں کے درمیاں
کس کی شمشیر ِ برہنہ کے طفیل
سرخ رْو ہے آج بھی یہ خاکداں
تھم نہیں سکتی کبھی باران ِ خوں
خوں کے آنسو رو رہا ہے آسماں
میرے لفظوں سے ٹپکتا ہے لہو
لکھ رہا ہوں خون سے یہ داستاں
کے اشرف
|