غزل
کے اشرف
زمین و زمن سب کہاں کھو گئے ہیں
تری اِک نظر میں جہاں کھو گئے ہیں
خبر کس کو جادو یہ ٹوٹے گا کیسے
یہاں کتنے ہی کہکشاں کھو گئے ہیں
کرے گا یہاں کوئی کیا فکر ِدنیا
ترے غم میں کون و مکاں کھو گئے ہیں
نہیں کوئی اُمید پانے کی تجھ کو
کہ اب تو ترےسب نشاں کھو گئے ہیں
ہے شام جدائی غم ِدل سے کیا ہو
یہاں کتنے ہی کارواں کھو گئے ہیں
نہیں کوئی پونچھے جو خواجہ کے آنسو
کہ تھے جتنے بھی مہرباں کھو گئے ہیں
۰۰۰۰۰۰