غزل
کے اشرف
اُن سے ملا کے ہاتھ کیوں اِترا رہا ہوں میں
لگتا ہے جیسے آسماں پہ چھا رہا ہوں میں
لکھے نہیں ہیں جو ابھی فطرت کے ہاتھ نے
کچھ ایسے تازہ نغمے ابھی گا رہا ہوں میں
بچھڑے تھے قافلے سے کبھی جو بھی راہرو
واپس انہیں بھی قافلے میں لا رہا ہوں میں
میری نوائے تازہ سے حیرت میں ہے جہاں
جلوے وہ حرف و صوت کے دکھلا رہا ہوں میں
میں آفتا ب ِعشق ہوں میرا ہےسب جہاں
مہرو وفا کی روشنی پھیلا رہا ہوں میں
جس کو بھی شوقِ دید ہو آئے وہ شوق سے
پھر ساتھ اپنے خواجہ ؔجی کو لا رہا ہوں میں
*******