غزل
کے اشرف
تیر وہ دل پہ چلائے ہائے
عشق میں اپنے جلائے ہائے
ہم رہیں زندہ نہ مر ہی پائیں
زہر وہ ایسا پلائے ہائے
بلبلیں سب ہی ہوئی ہیں بے حال
عشق نے گل وہ کھلائے ہائے
اُس کی باتیں تو وہ کرتا ہے روز
کاش وہ اُس سے ملائے ہائے
وصل کے خواب دکھا کر وہ ہمیں
ہجر میں ایسے رُلائے ہائے
نالے کیوں ایسے کرے ہے خواجہؔ
عرش کے پائے ہلائے ہائے
******