غزل
کے اشرف
لمس جاناں ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں
تونے بس سوچا ہے ایسا پر ہوا کچھ بھی نہیں
آدمی ہی آدمی ہے ہو زمیں یا آسماں
ہے خیالِ آدمی ورنہ خدا کچھ بھی نہیں
کس نے کس سے کیا کہا کیسے کہا کیونکر کہا
پوچھتے ہوتو سنو ہم نے سنا کچھ بھی نہیں
لوگ ہو جاتے ہیں سنجیدہ نہ جانے کس لیے
کچھ نہ کچھ کہنا ہے عادت مدعا کچھ بھی نہیں
فکر و فن کی شمعوں کو بس جلتے رہنا چاہئے
نا رہیں یہ شمعیں تو سمجھو رہا کچھ بھی نہیں
ہیں غنیمت خواجہؔ جی اِس گئے گزرے دور میں
ورنہ اخلاص و محبت اور وفا کچھ بھی نہیں
*********