غزل
کے اشرف
منزلیں لا پتہ راستے بے نشاں
کون جانے کہ ہم کھو گئے ہیں کہاں
دشت میں تھی کبھی راستوں کی خبر
ہم پہ تھا مہرباں یہ کھلا آسماں
زندگی تھی حسیں مہرباں اور جواں
اب نہ جانے وہ سب رہ گیا ہے کہاں
روشنی سے منور تھے تب روزو شب
اب دنوں میں بھی ہےتیرگی کا سماں
اب تو ہونا نہ ہونا برابر ہے سب
اپنی یاور ہیں اب آہیں اور سسکیاں
اے خدائے ازل ہے یہ کیسا سفر
جس میں چلتے ہیں سب ہی گماں در گماں
خواجہ جی حوصلہ، حوصلہ، حوصلہ
پہلے گزرے ہیں کتنے یہاں کارواں
***********