* کبھی تو رنگ مری ذات کا سنور جائے *
غزل
کبھی تو رنگ مری ذات کا سنور جائے
کوئی تو ہو جو مری سوچ میں اتر جائے
بہت سے حادثے اس رہ گزر سے لپٹے ہیں
سفیرِ شب سے کہو لوٹ کر وہ گھر جائے
گھٹن کا دکھ نہیں الفت قفس کی حاوی تھی
رہائی پانے سے بہتر لگا کہ مرجائے
ہوا بھی تیز ہے گھنگھور ہے اندھیرا بھی
چراغ لے کے وہ حیران ہے کدھر جائے
مزاج اُس کا بدلتا تھا آنسوئوں کی طرح
مگر یہ دُھن بھی کہ ہر جرم میرے سر جائے
پلٹ کے دیکھنا دُکھ اور بھی بڑھائے گا
چلے چلو کہ یہ دشتِ بلا جدھر جائے
عزیزِ جاں ہیں دلارے ہیں دُکھ ، اُسے کہنا
کچھ اور زخم تبسم کے نام کرجائے
کہکشاں تبسم
C/O. Prof. Ziaul Islam
Sabaur College, Sabaur
Bhagalpur-813210
(Bihar)
Mob: 9973046607
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|