* پرسش کیسی رخ انجانے جیسا تھا *
غزل
پرسش کیسی رخ انجانے جیسا تھا
کہنا سننا وقت گنوانے جیسا تھا
صحرا نوردی لے کے ازل سے آئے تھے
گھر کیا تھا بس ایک ٹھکانے جیسا تھا
بچوں کی آنکھوں میں مچلا ضدی خواب
چاند ستارے توڑ کے لانے جیسا تھا
دل کے دکھ تو اُس سے کہنا لاحاصل
اک پتھر سے سر ٹکرانے جیسا تھا
گملوں میں تھی کانٹوں والی ہریالی
حال گھروں کا کیوں ویرانے جیسا تھا
آنکھ جہنم بنتی ہے تعبیروں سے
سپنا بھی آسیب بسانے جیسا تھا
دکھ سکھ رکھوں اِس میں تبسم پوشیدہ
اپنا دل انمول خزانے جیسا تھا
کہکشاں تبسم
C/O. Prof. Ziaul Islam
Sabaur College, Sabaur
Bhagalpur-813210
(Bihar)
Mob: 9973046607
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|