* مجھ کو یقیں نہیں یہ سبھوں کا قیاس ہ *
غزل
کیف عظیم آبادی
مجھ کو یقیں نہیں یہ سبھوں کا قیاس ہے
اس بے وفا کی آنکھ زمانہ شناس ہے
اس کو بجھا سکے گا نہ آبِ حیات بھی
یہ زندگی کی پیاس قیامت کی پیاس ہے
یاد آرہی ہے آج تمہارے بدن کی آنچ
خلوت ہے سوگوار دریچہ اداس ہے
زخموں سے کچھ غرض نہ تبسم سے واسطہ
دنیا! ترا مزاج ادا نا شناس ہے
آنکھوں میں بس گیا ہے ترا رنگِ پیرہن
پھیکا مری نظر میں گلوں کا لباس ہے
دامن ہے چاک، ہاتھ میں پتھر ہے سر پہ خاک
اس کی گلی میں جو بھی ہے وہ بد حواس ہے
اس تیرگی شام شب غم کو کیا کروں
ایسے میں آ بھی جائو بہت دل اداس ہے
٭٭٭
|